٢ ستمبر ٢٠١٩
چلم چوکی تا سکردو ١٠٠ کلومیٹر
صبح اٹھا تو بارش کی چند بوندیں پڑیں لیکن اس کے بعد بادل چھٹنا شروع ھو گئے۔ ناشتہ کیا سامان باندھا اور ٨ بجے سکردو کے لئے نکل پڑا۔ سکردو جانے کے لئے آپکو دیوسائی سے ھو کے جانا پڑتا ھے۔ کچھ دیر چلنے کے بعد ایک چیک پوسٹ آتی ھے وہاں سے آپکو انٹری کروانی پڑتی ھے اور ایک ١٠٠ روپے کی ٹکٹ بھی لینی پڑتی ھے۔ وہاں سے آپ شاپنگ بیگ بھی لے سکتے ھیں تا کہ آپ اپنا سارا کچرا اس میں ڈال کے وہاں پہ موجود ڈسٹ بن یا پھر اپنے ساتھ لے جائیں۔
٩ بجے میں شیوسر لیک پہنچ گیا۔ یہاں پہ میں نے آدھا گھنٹہ گزارا۔ فوٹوز وغیرہ لیں اور آگے کی طرف نکل پڑا۔ ابھی چلا ھی تھا کہ راستے میں میری طرح کا ایک مسافر سکردو سے ہونڈا ٧٠ پہ ملا۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اس نے بتایا کہ وہ گجرات سے آیا ھوا ھے۔ خیر میں نے اسکو اللہ حافظ بولا اور آگے کی طرف چل دیا۔ کیونکہ راستے میں کسی نے بتایا تھا کہ جتنی جلدی ھو سکے دیوسائی کراس کر جانا کیونکہ وہاں بلندی زیادہ ھونے کی وجہ سے موسم تبدیل ھوتا رہتا ھے۔
سردی بھی لگ رھی تھی کیونکہ ہوا بھی چل رہی تھی۔ اور میں اکیلا اپنی بائیک کو دوڑاتا ھوا جا رھا تھا۔ دل میں ایک ڈر بھی تھا کہ کہیں کوئی ریچھ نہ آجائے۔ کیونکہ ادھر بھورے ریچھ کی بہتات ھے اور وہ بہت خطرناک ہوتے ھیں۔
١١ بجے میں کالا پانی سے ہوتا ہوا بڑا پانی پہنچ گیا۔ یہاں پہ کچھ سیاح گھومنے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ میں نے یہاں سے چائے پی اور کچھ دیر بیٹھ گیا۔ یہاں بھی ہوا کا دباؤ کافی زیادہ تھا جس کی وجہ سے سردی کی شدت تھی۔ یہاں پہ کچھ دیر ریسٹ کرنے کے بعد میں دیوسائی کی طرف چل پڑا۔ میں جب دیوسائی کی طرف جا رہا تھا تو راستے میں تین چار گاڑیاں ملی جس میں کچھ لوگ بڑا پانی کی طرف جا رھے تھے۔ ان علاقوں میں کوئی بھی سم کام نہیں کرتی سوائے ایس کام(SCOM) کے. راستے میں اچانک فون کی گھنٹی بجی تو اس میں میرے ایک دوست کا فون آیا۔ سب سے پہلے تو میں حیران ہو گیا کہ یہاں پہ بھی سگنل آرہے ہیں۔ دوست سے بات کرنے کے بعد میں نے انٹر نیٹ آن کیا، نیٹ تو نہیں چل رہا تھا لیکن آپ کال پے بات کر سکتے تھے۔
١٢:۴۵ پہ میں دیوسائی پہنچ گیا۔ ادھر پہنچتے ہی ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئ۔ سردی بھی بڑھ گئ اور ہوا بھی تیز چل رھی تھی۔ کچھ دیر انجوائے کرنے کے بعد آگے کی طرف چلنے کا سوچا۔ دیوسائ کی اونچائ ۴١٠٠ میٹر ھے۔
میں دیوسائی ٹاپ سے نیچے اترا اور اسکردو کی طرف چل پڑا۔ اسکردو روڈ کی طرف جانے کی بجائے میں کسی اور طرف چل پڑا۔ تقریبا آدھا گھنٹہ موٹر سائیکل چلانے کے بعد آگے ایک جیپ والا ملا تو اس نے بتایا کہ آپ غلط راستے پر آگئے ھو۔ میں پھر واپس آیا اور اسکردو روڈ کی طرف چل پڑا۔ جب آپ دیوسائ سے سکردو کی طرف آتے ھیں تو راستہ کافی خطرناک ھے۔ کیونکہ واپسی پہ ساری اترائ ھے۔ میں ٣ بجے سدپارہ جھیل پہنچ گیا ۔ اس کا سبز سبز پانی کافی دلکش لگ رھا تھا۔ ادھر بھی تھوڑا بہت انجوائے کرنے کے بعد میں ۴ بجے سکردو پہنچ گیا۔ یہاں پہ ابراہیم بھائ میرا انتظار کر رھے تھے۔ سکردو میں بھی میری رھائش فری میں تھی۔ سکردو میں موسم گرم سا تھا۔ جس کی وجہ سے مجھے رات کو پنکھا چلا کے سونا پڑا۔ ادھر بھی رات کے کھانے میں بہت کچھ پیش کیا گیا۔ بہت مہمان نواز لوگ تھے۔
یہ تھا میرے پانچویں دن کا احوال امید ھے اچھا لگے گا۔ لمبی چوڑی روداد میں لکھ نہیں سکتا اس لئے معزرت۔